Friday, 8 May 2020

Our Dirty Literature. اردو

ہمارا گندا ادب
از
ٹیپو سلمان مخدوم



ہمارے اخلاقی روایات سے مزین معاشرے میں  پلے بوائے اور ایسے ہی دوسرے برہنہ تصاویر سے لبریز میگزین کھلے عام ٹھیلوں اور فٹ پاتھوں پر خاصے سستے داموں مل جاتے ہیں۔ بلیو فلمیں یعنی مباشرت کا عمل شہوت انگیزی کے ساتھ دکھانے والی فلمیں، ہر بازار میں کھلی سی ڈی کی دکانوں میں پچاس روپے کی سرعام بکتی ہیں۔ پورن سیکس یعنی برہنہ تصاویر اورعملِ مباشرت پر مبنی ویڈیوز کی سرچ میں گوگل کے مطابق ہم بین الاقوامی چیمپئن معاشرہ ہیں۔ اس کے علاوہ گلی، محلے، بازار، دفتر، دکان یا کہیں بھی آپ کو کوئی دوست یار مل جائے، بلکہ دوست یار چھوڑیے کوئی مناسب سا جاننے والا بھی مل جائے، تو ہر دوسرے جملے میں تین ماں بہن کی گندی گالیاں، جن میں اپنی ماں، بہن یا بیٹی کے ساتھ جنسی عمل کا بیان خاصی وضاحت سے ہوتا ہے، سننے کو باآسانی دستیاب ہو جاتی ہیں۔ 


لیکن اسی معاشرے میں اگر کوئی مصنف اپنی کہانی میں فرضی کرداروں کے علانیہ فرضی عمل مباشرت کو بیان کر دے یا کسی کردار کے کسی عضو مخصوصہ کا تذکرہ بھی کر دے تو ہمارے سماج کا اخلاقی شیرازہ شوربے کی طرح بہنے لگتا ہے۔
بات یہ نہیں کہ کہانی میں عضو مخصوصہ کی بات کرنا یا جنسی عمل یا جذبات کے بیان پر کوئی پابندی ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ یہ بیان ان الفاظ میں کرنے کی اخلاقی اجازت نہیں ہے جو زبان  میں خاص طور پر انہیں چیزوں کے لئے موجود ہیں۔ یہ بیان علامتوں کی دھند میں، آدھا دکھا کر اور آدھا چھپا کر کرنے کی تنبیہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس طرح کے موضوع کو ہم ادب سے باہر نکال کر پھینکنا کیوں چاہتے ہیں؟ ادب کی اس جھاڑ پونچھ اور سلائی دھلائی کا مقصد کیا ہے؟ کیا ہمیں اپنے ان عضوعات اور اعمال سے شرم آتی ہے؟ کیا ہم انہیں اپنی زندگیوں سے، یا کم از کم شعور سے کھرچ کھرچ کر مٹا دینا چاہتے ہیں؟ گلیوں اور بازاروں میں ان کا بے پایاں بیان سن کر، یا دکانوں اور بازاروں میں ان سے بھرپور سی ڈیوں اور  رسالوں کی بکری دیکھ کر تو ایسا نہیں لگتا۔
ہمیں کسی غیر کو  یہ بتاتے ہوئے تو شرم نہیں آتی کہ یہ میری بیوی ہے، حالانکہ اس بات کا صاف اور سیدھا مطلب یہی ہے کہ جناب یہ وہ خاتون ہیں جن کے ساتھ میں مباشرت کرتا ہوں۔ اپنی ماؤں بہنوں کے ساتھ بھی یہ بات کرتے ہم بالکل نہیں جھجکتے کہ فلاں فلاں میاں بیوی ہیں، حالانکہ اس بات کا بھی سیدھا مطلب یہی ہے کہ یہ وہ مرد اور خاتون ہیں جنہیں آپس میں مباشرت کرنے کی قانونی اور سماجی طور پر اجازت ہے۔ مگر اپنے بند کمرے میں، بنا آواز کے، فرضی لوگوں کے جنسی عمل کے بارے میں کہانی پڑھتے ہوئے ہمیں بہت شرم آتی ہے، اور ساتھ میں یہ جان لیوا خوف بھی محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ گندی تحریر ہماری ماں بہنیں نہ پڑھ لیں۔ ویسے یہ بھی ایک سوال ہے کہ اگر یہ "گندی" تحریر وہ پڑھ بھی لیں گی تو کون سی قیامت برپا ہو جائے گی؟ کیا وہ جیتا جاگتا انسان نہیں ہیں یا اسی معاشرے کی جم پل نہیں ہیں؟ چاند سے درآمد کی گئی کوئی عجیب و غریب مخلوق ہیں؟
ویسے ایسا بھی محسوس نہیں ہوتا کہ ہمارے معاشرے میں جنسی عمل کو کوئی گندا، کراہت آمیز یا بے شرمی پر مبنی عمل سمجھا جاتا ہے۔ کم ازکم شادی بیاہ کی گہماگہمی دیکھ کر تو ایسا بالکل نہیں لگتا۔
مہذب معاشروں نے ایسی بحثیں سو ڈیڑھ سو سال پہلے کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی بھی ایسا عمل جو معاشرتی طور پر رائج ہے، ادب سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ اور کسی بھی بات کو علامتوں میں چھپا کر کیا جانا ہے یا پھر سیدھی طرح ان الفاظ میں جو مروجہ لغت میں موجود ہی خاص اس اظہار کے لیے ہیں، مصنف کا فیصلہ ہوگا۔ اگر سماج کوئی چیز پسند نہیں کرے گا تو وہ پڑھی نہیں جائے گی، اور پھر ظاہر ہے کہ لکھی بھی نہیں جائے گی۔ ان معاشروں نے فیصلہ کیا کہ ادب کی کسوٹی قاری ہی ہونا چاہیے، اسے اخلاقی ٹھیکے داروں کے حوالے نہیں کرنا چاہیے۔
ہم نے کیا فیصلہ کرنا ہے، اس پر بات ہونی چاہیے۔

2 comments: