Thursday, 7 May 2020

Why Arabic Script for Punjabi?

پنجابی زبان کے لیے عربی رسم الخط کیوں؟

از
ٹیپو سلمان مخدوم




یہ الف ب پ والا رسم الخط جسے ہم لوگ عرف عام میں فارسی رسم الخط کہتے ہیں دراصل عربی رسم الخط ہے۔


سنسکرت اور پنجابی سمیت اس خطے کی تمام پرانی زبانیں جن میں ایران کی فارسی زبان بھی شامل ہے، یہاں کی انڈو یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ عربی زبان مشرق وسطی کے سامی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، جن میں عربی اور عبرانی زبانیں شامل ہیں۔
پنجابی، سنسکرت اور فارسی زبانیں عربی زبان سے سینکڑوں ہزاروں سال پرانی ہیں۔ 
عربی زبان کی عمر ابھی دوہزار سال بھی نہیں ہوئی۔ عربی زبان تیسری صدی عیسوی میں معرض وجود میں آئی جبکہ اس کی سب سے پرانی تحریر چھٹی صدی عیسوی کی ہے۔


اس کے مقابلے میں فارسی زبان ایران میں چھٹی صدی قبل از مسیح سے بولی جارہی ہے اور اسی زمانے سے اپنے رسم الخط میں لکھی جاتی رہی ہے۔


ساتویں صدی عیسوی میں عربوں کے ایران فتح کرنے کے وقت ایران کی سرکاری اور عوامی زبان فارسی تھی جو کہ اس کے اپنے پہلوی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔
عربوں کے فتح ایران کے بعد ایران کی سرکاری زبان عربی کردی گئی۔ فارسی زبان اپنے پہلوی رسمل خط میں دو سو سال تک زندہ رہی مگر آخر کار عربی تسلط کے آگے فارسی رسم الخط دھیرے دھیرے دم توڑ گیا، یہاں تک کہ نویں صدی عیسوی سے فارسی کا پہلوی رسم الخط مار دیا گیا اور فارسی زبان عربی رسم الخط میں لکھی جانے لگی، جو سلسلہ آج تک جاری ہے۔
فارسی زبان ایران سے افغانستان اور وسطی ایشیا سے ہوتی ہوئی سلاطین دہلی اور مغلوں کے ذریعے ہندوستان آن پہنچی۔
ہندوستان میں چونکہ فارسی زبان سرکاری زبان بن گئی تو اس کا لایا ہوا عربی رسم الخط بھی سب سے معتبر ٹھہرا۔
یہی وجہ ہے کہ جب درباری طور پر ہندوستان کی رابطے کی زبان جسے کھڑی بولی، ہندوی یا ہندوستانی بھی کہا جاتا تھا، لکھی جانے لگی تو دیو ناگری رسم الخط کے ساتھ ساتھ سرکاری طور پر رائج عربی رسم الخط میں بھی لکھی گئی، اور اس رسم الخط میں لکھی ہوئی ہندوستانی بولی آخرکار اردو کہلائی۔
یہی ہندوستانی بولی جب ہندوستان کے ساڑھے تین ہزار سال پرانے سنسکرتی رسم الخط میں لکھی گئی تو ہندی کہلائی۔


ایسا ہی کچھ پنجابی زبان کے ساتھ بھی ہوا۔ ہڑپہ کی تہذیب کی تباہی کے بعد پنجاب پر پے در پے لٹیروں کے حملے ہوتے رہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہڑپہ میں بولی اور لکھی جانے والی پرانی پنجابی کا رسم الخط تو ماضی میں کہیں دفن ہوگیا، مگر پنجابی زبان بولی کے طور پر اپنے ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی آج کی پنجابی تک آن پہنچی۔


جب بابا فرید اور گرونانک کے زمانوں میں کچھ پڑھے لکھے لوگوں نے ان بزرگوں کا اعلی کلام لکھ کر محفوظ کرنے کا سوچا ہوگا تو ظاہر ہے کہ پنجابی کا اپنا کوئی معتبر رسم الخط نہ ہونے کی بنا پر اس بولی کو اسی رسم الخط میں لکھنے کا فیصلہ کیا ہوگا جو رائج العام ہوگا اور انہیں آتا بھی ہوگا۔ اس زمانے میں سرکاری زبان فارسی تھی جو کہ عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی لہذا یہ پنجابی کلام بھی عربی رسم الخط میں لکھے گئے۔
بعد میں سکھ مت کے دوسرے گورو نے پنجاب کے ایک سنسکرتی خاندان کے مقامی رسم الخط کو تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ پنجابی کے لیے رائج کردیا۔ یہیں سے اس رسم الخط کا نام گروجی کی معرفت گرمکھی پڑ گیا، اور اس کو سکھ مت کے ساتھ نتھی کیا جانے لگا۔



لہٰذا عربی مسلمان رسم الخط ٹھہرا اور گرمکھی سکھ رسم الخط، اور پنجابی قوم اور زمین کے ساتھ ساتھ اب پنجابی زبان کا بھی بٹوارہ ہوگیا۔


Published on Humsub:
https://www.humsub.com.pk/317502/tipu-salman-makhdoom-3/

3 comments:

  1. A very enlightening and educating article . But I have a feeling that people now would not take pains to learn Gurmukhi

    ReplyDelete
  2. Explains well the bifurcation of one language by two scripts, even before the religious /political partition took place. The good thing is that many on both sides of the border are realizing the importance of knowing both scripts. May their tribe grow!

    ReplyDelete
  3. جو لڑکیاں اور بڑی عمر کی خواتین پٹھان کے ساتھ فون پر اور حقیقت میں زندگی کی خوبصورت لمحات گزارنا چاہتی ہے وہ لازمی وٹس اپ یا مسج کریں ۔ ہم سیدھے سادھے پہاڑوں کے لوگ ہیں استعمال مت کریں بلکہ خوبصورت وقت گزاریں اپکے اور ہمارے لمحات یادگار بن جائینگے ۔ رابطہ 03019738356

    ReplyDelete