ایمان
از
شہزاد اسلم
رات کا اندھیرا اپنے اندر آسمان کی وسعت لئے تہہ در تہہ
پھیلا ہوا ہے۔ کرشنا نگر گاؤں کی تاریک گلیوں کی گہری خاموشی سے پرے ندی کا پانی
سانپ کی پھنکار جیسی آواز کے ہمدم بہہ رہا ہے۔ گاؤں میں ہندوؤں کی آبادی
مسلمانوں کے چند گھروں کے گرد پھیلی ہوئی ہے جیسے ان کی حفاظتی فصیل ہو۔ مسلمانوں
کے گھروں سے جڑے ہوئے امام باڑہ اور گاؤں کے باہر واقع مندر نے اپنی حیثیت اور
پاک بازی کا دوسرے کو علم نہ ہونے دیا تھا۔ دونوں عمارتیں ایک دوسرے سے لاعلم اور
بے پرواہ امام حسینؓ کے گھوڑے اور گاؤ ماتا کے تقدس سے ہمکنار تھیں۔ دونوں کے جسموں سے گاؤں کی ندی کے پانی کو
پوتر کیا جاتا تھا۔ محرم کے دنوں میں جب دور دور سے لوگ مجلس میں شرکت کرنے آتے
تو گاؤں کے ہندو بھی امام حسینؓ کی شہادت کے بیان کو سنتے اور اپنی مرادیں پوری
کرنے کیلئے گھوڑے کے نیچے سے جھک کر گزرتے اور روضہ کو بوسہ دیتے۔ بیساکھی کا میلہ
ہو یا رنگولی ہو، مٹی اور رنگوں کی تہہ مسلمان اور ہندو کے چہروں پر یکساں جمتی۔
گیہوں کی فصل کی خوشبو کو، ہوا بلا امتیازِ مذہب گلیوں اور گھروں کے اندر بکھیرتی۔
کشادہ گھروں کو مسلمانوں کے نوجوانوں نے
ہی آزادی کی جنگ کے بعد تعمیر کیا تھا۔
ہندو سرپنچ مسلمانوں کے گھریلو جھگڑوں کے تصفیہ کیلئے پنچایت لگا تے۔ چند ایک
موقعوں پر تو مسلمان لڑکوں نے مندر کی خستہ دیواروں کو مرمت بھی کیا تھا۔
محرم کا چاند نکلنے سے قبل علی رضا کے گھر مسلمان مردوں کا
اجتماع ہوتا ہے۔ علی رضا لنگی کے اوپر سفید پوشاک پہنے چارپائی پر بیٹھا ہے۔ سبھی
کے چہروں پر اضطراب نے سلوٹیں ڈال دی ہیں۔ علی رضا سب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ
۲۱ ویں صد ی میں ہمارے حالات بدل گئے ہیں۔ ہمیں پہلے سے خبریں مل رہی ہیں کہ جلوس
کو روکا جائے گا۔ ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ ’ہم امام حسین ؓکے ماننے والے ہیں، اپنے
مذہب کیلئے قربانی دینی پڑی تو دیں گے‘۔ علی رضا کے بیٹے حسین نے آواز بلند کی۔
دوسرے لڑکوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ہم ان سے لڑ نہیں سکتے، آخر ہم
اقلیت ہیں۔ علی رضا نے غصے میں اپنے بیٹے کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ اگر لڑ نہیں سکتے اور اقلیت ہیں تو پھر ہندو بن کر
اکثریت بن جائیں؟ حسن نے سوالیہ نظروں سے چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے غمگین مردوں کی
طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ’بھلا دھرم کیسے چھوڑ سکتے ہیں‘۔ علی رضا کے ساتھ بیٹھے
ہوئے ذاکر اہلیبیت محمد مہدی نے لقمہ دیا۔ ہم تو کسی کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کا
نہیں کہتے، تو پھر کسی کو ہمارے مذہب سے کیا تکلیف ہے، پچھلی چارپائی پر بیٹھے
ہوئے نوجوان نے ہوا میں انگلی لہراتے ہوئے اپنی بے کسی سے باغی ہوتے ہوئے کہا۔ ایک
بوڑھے شخص نے گہری سوچ سے اپنا دامن نکالتے ہوئے، اس چھوٹی محفل کو مخاطب کرتے
ہوئے کہا کہ ’صدیوں سے یہاں آباد ہیں اور
ہم نے تو تقسیم کے دوران بھی نہرو کے انڈیا میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے پاس
لٹانے کو کچھ نہ تھا اور نہ ہی کسی نے لوٹنے کا تردد کیا۔ شہروں میں ہونے والی
مذہبی، لسانی اور گروہی لڑائیوں کا یا تو ہمیں علم نہ ہوتا اور اگر ہوتا تو اس وقت
جھگڑا مع وجہ کے ہوا میں تحلیل ہو چکا ہوتا۔ جب نہرو خاندان الٰہ آباد کو نہ بچا
سکا تو پھر کسی نے آگ بجھنے ہی نہ دی۔ علی رضا کے بیٹے حسن نے اس ذہین بوڑھے سے
پوچھا کہ آخر حالات بدل کیسے گئے اور نفرت کی آگ ہم تک کیسے پہنچی؟’ بیٹا حسن، ہم
مسلمان تو پہلے ہی ماضی میں زندہ رہتے ہیں۔ اب ہندو بھی ماضی کی طرف مائل ہے۔
مسلمان جب ماضی کی طرف دیکھتا ہے تو اسے سحر طاری کر دینے والا شاندار دور نظر
آتا ہے اور ہندو کو برداشت نہ ہونے والا جبر نظر آتا ہے جو ان کے پرکھوں نے محسوس
کیا‘۔ بوڑھے کی ان باتوں سے سب کے اوپر خاموشی کا غلاف چڑھ گیا، گویا سب سوچ رہے
ہوں کہ یہ ماضی والی بیماری تو جیسے لا علاج ہے۔
مجلس برخواست ہونے سے پہلے سب نے متفقہ فیصلہ کیا کہ وہ معمول کے مطابق ہی سارے کام سر انجام دیں
گے، جیسے وہ ہمیشہ سے کرتے چلے آئے ہیں۔
اگلے کچھ دن تو ایسے گزرے جیسے زندگی اپنی روانی میں ہی مست
ہے اور کسی تبدیلی کی تکلیف سے کوسوں دور۔ دسویں محرم کے دن امام باڑہ میں امام
حسینؓ کے روضہ کی شبیہ کو زرق برق کاغذوں سے سجا دیا گیا۔ گھوڑے پر زین کس دی گئی
اور اس کی گردن اور چہرے پر سرخ رنگ، شہیدوں کے خون کی یاد تازہ کرنے کیلئے انڈیلا
گیا۔ زین کے ساتھ تلوار لٹکی ہوئی نظر آرہی تھی۔ ماتمی کالا لباس پہنے لوگ جوق در جوق امام باڑہ کے صحن میں اکھٹا
ہونا شروع ہو گئے۔ ان کے ننگے پاؤں مٹی کی حرارت کو محسوس کر رہے تھے۔ ذاکر
اہلیبیت جب سٹیج پر تشریف لائے تو تمام لوگ نیچے بیٹھ گئے۔ حسن اور چند دوسرے
نوجوان مجمع کے پیچھے کسی بھی خطرہ سے نبرد آزما ہونے کیلئے تیار کھڑے تھے۔ ذاکر
اہلیت نے اپنے مرثیوں سے ماتمی حضرات کو غم حسیؓن سے روشناس کرایا۔ کوئی آدھے
گھنٹے بعد عزاداران جلوس کی شکل میں شیعہ کے ساتھ امام باڑہ سے باہر نکلے اور نوحے
پڑھتے ہوئے اپنے سینے پیٹنے لگے۔ حسن، شیعہ کے پاس موجود تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن
کسی انجانے خوف سے بدکی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ گلی کے کونے پر جب جلوس پہنچا تو
حسن جلوس کے آگے آکر زنجیر زنی کرنے لگا۔ کچھ دور نوجوان بھی یا حسینؓ، یا حسینؓ
کہتے ہوئے اپنی ننگی کمر پر زنجیروں کے
وار کرنے لگے۔ خون کے چھینٹے جب زمین پر گرنے لگے تو ان کے ہاتھوں کی حرکت اور تیز
ہو گئی۔ وہ تو گویا زمان و مکان سے بے پرواہ ہو گئے۔ اتنے میں ایک گائے بھاگتی
ہوئی جلوس کے سامنے آن پہنچی۔ گائے کو تین ہندو لڑکے ہانکتے ہوئے آرہے تھے۔ گائے
زنجیر زنی کرنے والے نوجوانوں کے پاس دیوار کے ساتھ سہمی ہوئی کھڑی ہوگئی۔ آگے
جانے کا راستہ نہ تھا۔ یا حسینؓ، یا حسینؓ
کی آواز گلی میں گونج رہی تھی۔ خون کے چند قطرے گائے کے جسم پر پڑے اور پھر جب
گائے ڈر کر واپس بھاگی تو ہندو لڑکے بھی اس کے پیچھے بھاگے۔ جلوس رینگتا ہوا
آبادی سے باہر نکلنے کی خاطر گلی کے آخری موڑ کے قریب تھا کہ اچانک مخالف سمت سے
ہندوؤں کا ایک گروہ ہاتھوں میں ڈنڈے، خنجر اور بندوقیں لئے آن پہنچا۔ جہاں ماتمی
سینہ کوبی میں اپنے ہاتھ بلند کر رہے تھے، وہاں ان کی نگاہیں اس نئے خطرے کو بھانپ
گئیں جو چند لمحوں میں مذہب کے فرق کے علاوہ ہر یکسانیت کو کاٹنے کیلئے گرج رہا
تھا۔ ماضی کا غم، حال کے غم میں سرایت کر گیا اور گلی میں خون، گرتی ہوئی لاشوں
سے، خاک کو سرخ کرنے لگا۔ گھوڑے کے جسم پر لگے ہوئے رنگ کو خون نے اور بھی گہرا کر
دیا۔ علی رضا اور اس کے بیٹے حسن کی
لاشیں، دوسرے ماتمیوں کے ساکن جسموں میں
الجھی ہوئی تھیں۔ گاؤ ماتا کی بے حرمتی کا بدلہ انسانوں اور جانور سے پورا ہو گیا
تھا۔ پولیس موقع پر آگئی۔ کیمروں کی آنکھیں خون سے رنگے جسموں پر مرتکز ہو گئیں۔
مشرق سے چلنے والی ہوا کا رخ مغرب کی طرف تھا۔ تقسیم میں چلنے والی تلوار آج
کرشنا نگر میں بھی پہنچ گئی۔ اس ماتم کا ماتم، ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر لکیر کی
دوسری طرف فصلوں کو مرجھاتے ہوئے جی ٹی روڈ پر واقع اہرمان آباد کی پرانی دیواروں
سے ٹکرایا۔ خاک کا ایک بھنور اٹھا جس نے سورج کی روشنی مدہم کر دی۔ علی رضا اپنے
دو منزلہ مکان کے بالائی حصہ میں اس دیوار کے سامنے، جہاں کبھی ہندو اپنے دیوتا کی
آرتی اتارتے تھے، کھڑا ہو کر اپنی داڑھی کے بالوں کو سنوار رہا تھا۔ ٹیلی وژن کی
سکرین علی رضا کے سامنے پڑے آئینے میں نظر آ رہی تھی۔ علی رضا نے سلائی سرمے
دانی میں ڈبو کر اپنی آنکھوں میں ڈالی۔ سرمے کی رڑک سے اس کی آنکھوں میں پانی
آگیا۔ اچانک اس کے کانوں میں نیوز کاسٹر کی آواز پڑی جو کہہ رہی تھی کہ انڈیا کے
سیکولرازم کا بھرم آج کھل گیا۔ مسلمانوں پر ہندوستان کی سرزمین تنگ کر دی گئی ہے۔
آج کرشنا نگر میں ۵۰ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا اور متعدد زخمی بھی ہوئے۔ علی
رضا نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے ٹیلی ویژن
کی طرف رخ موڑا اور خبروں میں محو ہو گیا۔
اس کے چہرے پر غصے کے نشان نمایاں تھے۔ ٹیلی وژن بند کر کے وہ فوراً نیچے آیا
جہاں ایک کمرے میں چٹائی پر بیٹھ کر اس کا بیٹا حسن کھانا کھا رہا
تھا۔ جلدی کھانا ختم کرو اور جوتے پہن کر میرے ساتھ آؤ۔ علی رضا نے اپنے بیٹے
حسن کو غصے میں بلند ہوتی آواز سے حکم دیا۔ خیریت تو ہے، حسن نے اپنے باپ سے
پریشانی میں پوچھا۔ مسلمان ذبح ہو رہے ہیں اور ہم گھر میں آرام سے بیٹھے ہیں۔ علی
رضا نے وضاحت کی۔ دونوں جلدی میں مسجد پہنچے تو کافی لوگ وہاں پہلے سے موجود تھے
اور اللہ اکبر، اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ پندرہ بیس منٹ میں لاؤڈ سپیکر پر
ہونے والے اعلان سے سینکڑوں لوگ جمع ہو
گئے اور جلوس جی ٹی روڈ کی طرف چل پڑا۔ جلوس سے جی ٹی روڈ کی ٹریفک رک گئی۔ پرانے
ٹائروں کو آگ لگا کر سڑک کے بیچ رکھ دیا گیا۔ علی رضا اور حسن جلوس کی سر پرستی
کرتے ہوئے آگے چل رہے تھے۔ انڈیا کے خلاف
نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ گاڑیوں میں بیٹھے مسافر ڈرے ہوئے تھے۔ کچھ لڑکوں نے جلوس
سے نکل کر کھڑی گاڑیوں کے شیشے بھی توڑ دیے اور واپس جلوس میں شامل ہو کر پھر نعرے
لگانے لگے۔ علی رضا کی سربراہی میں جلوس ہندوؤں اور سکھوں کے بنائے ہوئے گھروں کو
پیچھے چھوڑ آیا تھا جہاں اب ایک بھی ہندو یا سکھ رہائش پزیر نہ تھا۔ محرم کے جلوس کے قریب سے گزرتے ہوئے
علی رضا نے نفرت انگیز نظروں سے دیکھا اور بڑبڑاتے ہوئے آگے گزر گیا۔ جہاں یہ جلوس بچوں کیلئے تفریح کا سامان تھا، تو کچھ
کیلئے سیاسی مقصد کیلئے ضروری کارروائی تھی۔ علی رضا کی آنکھوں میں نفرت کے
انگارے پھوٹ رہے تھے۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے سامنے اگر ہندو موجود ہوں
تو انہیں کاٹ ڈالے۔ اسے اپنی نفرت کی آگ سے جلانے کا کوئی سامان نظر نہیں آرہا تھا۔ علی
رضا کی نظر سڑک کے چار گھروں پر پڑی تو اس کے قدم خودبخود ادھر مڑ گئے۔ سڑک پار کر
کے علی رضا ان مکانوں کے قریب آگیا۔ وہاں بچے ننگے پاؤں مٹی کے ڈھیر کے اوپر بیٹھ کر
کھیل رہے تھے۔ اتنے بڑے جلوس کو دیکھ کر خوف کی ایک لہر نے ان کے جسموں میں کپکپی
طاری کی اور وہ بھاگ کر اپنے گھروں میں داخل ہو گئے۔ مٹی کے ٹیلے کے قریب بیٹھے
ہوئے کتے بھی نعروں کی آواز سن کر دبک گئے۔ جلوس جس اندرونی سڑک پر آرہا تھا
وہاں عیسائیوں کی آبادی تھی اور ایک قدیم گرجے کا دروازہ اس اندرونی سڑک پر کھلتا
تھا۔ علی رضا اور اس کے سینکڑوں ساتھیوں کی نظروں سے گرجا اور مندر کا فرق اوجھل
تھا۔ گرجا کے سامنے پہنچ کر علی رضا رک گیا اور اس کے پیچھے آنے والے نعرے باز
بھی رک گئے۔ علی رضا نے اپنے قریبی ساتھیوں کے کان میں سرگوشی کی اور چند منٹ بعد
گرجا کی صلیب کا رنگ ڈھلتے سورج کی سرخی میں رنگ گیا۔ ایک آگ اٹھی جو قریبی
مکانوں اور ان کے اندر بسنے والوں کو جلا کر ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ زمین کا وجود پاک ہوا اور علی رضا کے جسم اور
روح میں شانتی آگئی۔ پولیس کے آنے سے قبل ہی جلوس غازیوں کی صورت واپس چلا گیا۔
سورج مایوسی کی چادر اوڑھے مغرب کی طرف کہیں دھنس گیا۔ تیز آندھی کے بعد
بارش آئی اور بادل دھویں اور آگ سے لپٹی
دیواروں کو مرہم لگا کر کہیں افق میں گم ہوگئے۔ جی ٹی روڈ پر ایک دوسرے کا پیچھا کرتی ہوئی گاڑیاں زندگی اور موت
کے کھیل سے بے پرواہ اپنے سفر پر رواں دواں تھیں۔
No comments:
Post a Comment