Tuesday, 29 May 2018

چیل گوشت ۔ کہانی

چیل  گوشت
از
شہزاد  اسلم


رمضان لاہور کی سول عدالت میں بطور اہلمد (ریکارڈ کیپر) تعینات ہے۔ وہ پندرہ سال قبل اپنے چچا زاد بھائی جو ہائی کورٹ میں ملازم تھا، کی کوششوں سے نوکر ہوا۔ نوکری ملنے سے تعلیم کا سلسلہ ایف اے تک منقطع ہو گیا۔ شادی کے بعد، بیوی اور تین بچوں کا بوجھ فائلوں کے ساتھ شامل ہو گیا۔ زندگی اسی بوجھ سے لرزہ براندام تھی۔ تقریباً بیس مختلف سول ججوں کے ساتھ کام کرتے کرتے طبعیت کرختگی اور الجھن نے افسانہ برپا کر دیا تھا۔

رمضان کرشن نگر کی تنگ گلی میں اپنے ابا کے گھر مکین تھا۔ ابا کی صحت سے یہ گمان ہوتا تھا کہ چند سالوں میں وہ اس تنگ گلی کے بوسیدہ گھر کا مالک بن جائے گا۔ کرشن نگر سے ایوان عدل تک کا راستہ رمضان  جیسے چھوٹے ملازمین اور مزدوروں کے بے ہنگم ہجوم سے لدا رہتا تھا۔ الجھے راستے، الجھی فائلوں کے ساتھ رمضان کی اپنی زندگی بھی الجھی ہوئی تھی۔ وہ روزانہ گھر کی پریشانیوں سے چھٹکارا پا کر لوئر مال پر واقع ایوان عدل کی تیسری منزل پر واقع عدالت کے ساتھ جڑے ہوئے چھوٹے کمرے میں عدالتی وقت شروع ہونے سے پندرہ منٹ قبل ہی پہنچ جاتا۔ اس کمرے میں دو عدالتوں کے اہلمد اپنی فائلوں کے ہمراہ گوشہ نشین تھے۔
دفتر میں پہنچ کر وہ ترتیب دی ہوئی فائلوں کو ہمراہ لسٹ عدالت میں پہنچا دیتا۔ عدالتی سمن، روبکار اور نقولات کی تیاری اس کا روزانہ کا کام تھا۔ تانگے میں جتا ہوا گھوڑا جسے اپنی منزل سے بے پرواہی ہو۔ وہ اپنا کام ایمانداری سے کرتا لیکن اس خلش کے ساتھ کہ اس کے پاس آنے والے بے چین لوگوں کو چین دینے کا کوئی آلہ اس کے پاس موجود نہ تھا۔ اس کی نظروں میں انصاف کا نظام مظلوم لوگوں کا ظلمت کدہ تھا۔ جج صاحب کہاں کے رہنے والے ہیں ، پیسے لیتے ہیں یا سفارش مان لیتے ہیں؟ یہ سوالات روزانہ آنے والے سائلین میں سے کچھ اس سے پوچھتے اور وہ ہر دفع جواب دیتا کہ مجھے علم نہیں، خود جا کر پوچھ لو جج صاحب سے۔ اس کا ساتھی اہلمد اسے سمجھاتا کہ نوکری کرنے کا طریقہ تم نہ سمجھ سکو گے۔ ارے بھائی، یہ سائلین خدا کی طرف سے بھیجے گئے فرشتے ہیں۔ ان سے مانگتے رہو اور بدلے میں امید کے سکے ان کے ہاتھ میں تھماتے جاؤ۔ وہ بھی خوش، ہم بھی خوش۔ تنخواہ تو بس ٹپ ہی سمجھو۔ اصل روزگار تو یہ لوگ ہیں جو اکثر ہمیں خوش کرنے اور ہمدردی جیتنے کے لئے کچھ نہ کچھ دے جاتے ہیں۔ ساتھی اہلمد نے یہ بھی سمجھایا کہ اگر ان سائلین سے زیادہ قربت دکھائی تو وہ مال مفت کی طرح استعمال کریں گے۔ رمضان کو یہ باتیں پسند نہ آتیں۔ لوگوں کو ڈرانا اور پھر تسلی دے کر بیوپار کرنا اس کے بس سے باہر تھا۔
آج صبح اٹھتے ہی بیوی نے بتایا کہ منا بیمار ہے۔ رات سے اسے بخار ہے۔ رمضان نے کپڑوں والی الماری میں بکھرے کپڑے ہٹائے اور پولی تھین بیگ میں مختلف انواع کی گولیاں اور شربت نکال کر ان کے اوپر کندہ نام پڑھے اور کال پول سیرپ نکال کر بیوی کو تھما دیا اور ہدایات دیتے ہوئے کہنے لگا کہ دن میں تین بار پلانا۔ اگر شام تک بخار نہ اترا تو ڈاکٹر کے پاس جائیں گے۔ وہ خود تیار ہونے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر عدالت پہنچنے میں دیر ہوگئی تو جج صاحب کے غصے کے سامنے نظریں  جھکا کر سوری کہنا پڑے گا اور وہ مطمئن ہوئے بغیر کمرے سے نکل جانے کا حکم سنائیں گے اور وہ بیوی اور حالات کو کوستے ہوئے واپس اپنے کمرے میں پہنچ جائے گا۔ رمضان ہمیشہ کی طرح مقررہ وقت سے پندرہ منٹ قبل ہی دفتر پہنچ گیا۔ گھر سے دوری نے اسے اپنے بیٹے کی بیماری سے جڑے تمام خدشات سے برسرپیکار کر دیا تھا۔ اس کا جی چاہا کہ ابھی رخصت لے کر گھر چلا جائے لیکن سائلین کے ہجوم اور دفتری کام نے اسے اپنی طرف کھینچ کر ذمہ داریوں کے دوپاٹوں میں الجھا دیا تھا۔ اس کی سوچ گھر میں لیٹے بیمار بچے پر منجمد تھی اور جسم خود ہی روزانہ کی ایک جیسی ذمہ داریاں نبھانے میں ایسے جتا ہوا تھا جیسے کام میں سوچ کا نہیں عادت کا عمل دخل تھا۔ کمرے میں بازو والی کرسی پر بیٹھے ہوئے دوسری عدالت کے اہلمد نے جب رمضان کے بے چین  چہرے کو دیکھا تو ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے مخاطب ہوا، رمضان، یہ کام تمھارے بس کا نہیں، جاؤ سڑک پر گنے کا رس نکال کر فروخت کرو۔ دوسروں کی مجبوریوں سے ہی اپنی خوشیاں نچوڑی جا سکتی ہیں۔ خدا نے اتنے لوگ تمھارے پاس بھیجے ہیں تم خدا کی کون کون سی نعمتوں کو  جھٹلاؤ گے۔
ابھی باتیں کر رہے تھے کہ رمضان کے کمرے میں چار وکلاء داخل ہوئے اور آتے ہی شور مچا دیا کہ ہم  یہاں کرپشن برداشت نہیں کریں گے۔ ’آگئے انصاف کے ٹھیکیدار‘ رمضان کا ساتھی اہلمد زیرلب  بڑبڑایا۔ ان چار وکلاء میں سے ایک، جس کے سر کے بالائی حصے پر برائے نام بال باقی بچے تھے اور تراشی ہوئی داڑھی میں سفید بال، سیاہ بالوں  میں  اس طرح نظر آرہے تھے جیسے دھان کی فصل میں اگی ہوئی جڑی بوٹی ہو، آگے بڑھا اور رمضان کو مخاطب کر کے گرجا ’اگر تمھارے جج کو کام کرنا نہیں آتا  تو گھر چلا جائے، یہاں اور بہت ہیں کام کرنے والے۔ رمضان کی حالت اس مردے جیسی تھی جس کے چاروں طرف لوگ چہرے کے دیدار کے لئے کھڑے ہوں اور وہ بے پرواہ پڑا ہو۔ جلدی کرو، فائل نکالو، ایک وکیل غرایا۔ رمضان کے ساتھی اہلمد نے صورت حال کو قابو کرنے کیلئے داڑھی والے وکیل کی آؤ بھگت شروع کر دی۔ وکیل صاحب غصہ کیوں ہوتے ہیں، ہمیں حکم کریں، ساتھی اہلمد نے التجا کے لہجے میں کہا۔ رمضان اور ساتھی اہلمد فائل نکال کر وکلاء کے حوالے کرتے ہیں۔ کمرے میں رش کی وجہ سے وہ وکلاء فائل لے کر باہر چلے گئے اور پھر رمضان باقی سائلین کی طرف متوجہ ہوا۔ رمضان کو کچھ دیر بعد اپنے بچے کی دوبارہ فکر ہوئی۔ عدالت کا وقت ختم ہوا اور رمضان جلدی سے سیڑھیاں اتر کر سڑک پر آیا اور بس میں بیٹھ کر کرشن نگر پہنچ گیا۔ گھر پہنچ کر کھانا کھایا اور پھر بچے کو لے کر ہسپتال چلا گیا۔ دو دن میں بچے کی حالت سنبھل گئی۔ ایک ہفتہ بعد عدالت نے رپورٹ مانگی کہ ایک کیس کی پیشی آج کیلئے مقرر تھی لیکن کیس کی فائل عدالت میں پیش نہ ہوئی ہے۔ رمضان کو رپورٹ کرنے اور فائل پیش کرنے کا حکم ہوا۔ کام کے درمیان جب بھی وقت ملتا، رمضان فائل کو تلاش کرنے میں لگ جاتا۔ پھر اسے یاد آیا کہ یہ تو وہی فائل ہے جو اس دن شور مچانے والے وکلاء نے لی تھی۔ رمضان کو تو ان وکلاء کے ناموں کا بھی علم نہ تھا۔ نہ  فائل ملی اور نہ ہی ان وکلاء کی شناخت ہو سکی۔ فائل کی گمشدگی کی رپورٹ ڈسٹرکٹ جج کو بھجوائی گئی اور پھر کچھ دنوں بعد رمضان کی انکوائری شروع ہو گئی۔ دراصل ایک پارٹی نے درخواست دی تھی کہ ان کی فائل رشوت لے کر گم کر دی گئی ہے۔
انکوائری شروع ہوئی اور مصیبتوں کا سیلاب امڈ کر رمضان کو ڈبو گیا۔ رمضان نے اپنی بے گناہی کا رونا رویا۔ درخواست گزار کی منت سماجت کی، سفارشیں لڑائیں لیکن اسے کیا علم تھا کہ ایک مرغے کی قربانی سارے محکمے کی عظمت اور بقا کیلئے سند ہے۔ اسماعیل تو تھا نہیں کہ بچ جاتا۔ ساتھیوں اور رشتہ داروں کے کہنے پر مختلف درگاہوں اور درباروں کی حاضریاں رمضان کا معمول بن گیا۔ نوکری گئی تو گھر ایک دن بھی نہ چل پائے گا۔ رمضان کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی۔ یہ نوکری ہی سرسوتی ہے۔ اور سسی فس کی طرح  اس نوکری کا بوجھ اٹھانا اس کی قسمت میں لکھا تھا۔ داتا صاحب، کوڑے شاہ، بلیوں والی سرکار  اور نہ جانے کون کون سے فقیر تھے جن کے در پر حاضری دی۔ جب بھی امید کا دامن چھوٹنے لگتا، کسی نئے فقیر کی کرامات، احباب کی زبانی معلوم ہوتیں اور امید کا دھاگہ پھر تن جاتا۔ ادھر انکوائری میں شہادتیں قلمبند ہوئیں ادھر رمضان کبھی پرندوں اور کبھی مچھلیوں کو خوراک ڈالتا رہا۔ بیوی کی لڑائی اور باپ کی کھانسی میں دبے ہوئے الفاظ، رمضان کو اپنی شکست کی آمد کا احساس دلاتے رہتے۔ چند سکوں کی تنخواہ  کا اتنا بوجھ ہوگا، رمضان نے کبھی سوچا نہ تھا۔ کام کا بوجھ روانی سے رمضان کے کندھوں پر سوار رہا۔  سب اپنی اپنی غرض کے غلام تھے، رمضان کی مدد تو دور کی بات کوئی دفتر میں جھوٹی تسلی بھی دینے کو تیار نہ تھا۔
رمضان کے محلے کے ایک درزی نے رمضان کی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے اسے مشورہ دیا کہ راوی کے پل پر جا کر چیل گوشت خریدے اور دریا کے سپرد کرے۔ رمضان کو اس کی باتوں میں  یقین رستا ہوا دکھائی دیا۔ رمضان نے فیصلہ کیا کہ وہ کل دفتر سے فارغ ہو کر راوی پل جائے گا۔
اگلے دن جب وہ دفتر پہنچا تو اسے انکوائری آفیسر کا پیغام ملا کہ وہ ۱۲ بجے فیصلہ سننے کیلئے پیش ہو۔ ۱۲ بجے جب وہ انکوائری آفیسر کے سامنے پیش ہوا تو انکوائری آفیسر نے حکم سنایا کہ وہ گنہگار ہے اور کیوں نہ اسے نوکری سے برخواست کرنے کی سزا دی جائے۔ جواب کیلئے اگلے دن کی تاریخ مقرر کی گئی۔ رمضان سکوت کی حالت میں جب انکوائری آفیسر کے دفتر کے باہر آیا تو آگے شکایت کنندہ  اسی وکیل کے ساتھ کھڑا تھا جس نے فائل لی تھی۔ وہ پاؤں گھسیٹتے ہوئے کسی الجھن میں گرفتار، ان کے قریب سے گزر گیا۔ اب چیل گوشت ہی اس کی آخری امید تھی۔ وہ سیدھا راوی پل پر ایک رکشے میں بیٹھ کر پہنچ گیا۔ نیچے دریا کے کناروں پر چند کشتیاں بارش کے پانی کے انتظار میں اوندھے منہ لیٹی تھیں۔ جہاں کبھی پانی دریا کی وسعت کا آئینہ دار تھا وہاں اب سوکھی ریت سورج کی تپش میں چمک  رہی تھی۔ کامران کی بارہ دری، جہانگیر کا مقبرہ اور دریا میٹھی نیند سو رہے تھے۔ دریا کے پل کے عین وسط میں غلیظ چہروں کے نیچے اڑے ہوئے رنگوں کے کپڑے پہنے مرد اور عورتیں خون میں رنگے ہوئے گوشت کے لوتھڑوں کے شاپر لئے آوازیں لگا رہے تھے۔ پل کے اوپر فضا میں کوے اور چیلیں بول بول کر رینگتی ہوئی گاڑیوں کے شور میں اضافہ کر رہی تھیں۔ رمضان بھی پل کے بیچ میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ سائیکل اور موٹر سائیکلوں پر سوار چند مسافر رک رک کر چیل گوشت خرید رہے تھے اور اپنے سروں کے اوپر گھما گھما کر دریا میں پھینک رہے تھے، جن کے انتظار میں کتے اور چیلیں پہلے سے موجود تھیں۔ سوزوکی مہران سے اتر کر ایک بیمار آدمی بھی یہی مشق کر رہا تھا اور پیچھے آنے والی گاڑیوں کے ڈرائیور اوورٹیک کرتے ہوئے اس بیمار آدمی کو گھورتے ہوئے بڑبڑا رہے تھے۔ غریبوں سے چرا کر خدا کو ادھار دینے والےامیر آدمی بے رخی سے گزر رہے تھے۔ غریبوں کا خدا بھی شاید غریب ہوتا ہے جس کے پاس غریبوں میں بانٹنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ رمضان نے ایک عورت سے چیل گوشت کے دو شاپر دو سو روپے میں خریدے۔ ایک شاپر اس نے اپنے سر کے گرد گھما کر دریا میں پھینک دیا اور دوسرا شاپر لئے ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کدھر پھینکے کہ ایک موٹر سائیکل پر سوار آدمی اس کے سامنے رکا اور چیل گوشت کا شاپر رمضان کے ہاتھ سے لیتے ہوئے اسے پانچ سو کا نوٹ تھما دیا۔ رمضان حیران وہاں کھڑا رہا۔ دو روپے بچانے کیلئے تکرار کرنے والے، یہاں قیمت کے معنی سے ہی نا آشنا نظر آتے ہیں۔ رمضان ۵۰۰ روپے تھامے واپس گھر چلا آیا۔ اسے یقین تھا کہ چیل گوشت کے وارنے سے اسکی مصیبت ٹل جائے گی۔ اگلے دن انکوائری آفیسر  نے جواب وصول کر کے رمضان کو نوکری سے فارغ کرنے کا فیصلہ سنایا۔ باہر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے رمضان نے اوپر دھواں اور گرد سے اٹے آسمان کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں پانی آگیا جس سے سامنے کا منظر دھندلا ہو گیا۔ اس نے ایک گھونٹ بھرا۔ آنکھ کا پانی، گلے میں رس گیا تھا۔ رمضان کے ماضی کو اس رات کے اندھیرے نے اپنی پناہ میں لے لیا۔ اگلی صبح وہ قصائی سے چیل گوشت خرید کر راوی کی طرف چل پڑا۔

No comments:

Post a Comment