Saturday, 26 May 2018

زمین کی قیمت ۔ کہانی

زمین کی قیمت
از
شہزاد اسلم


اشرف نے اپنی ساری زندگی ایمانداری سے گزاری تھی۔ لیکن وقت شاید ایماندار نہیں رہا تھا۔ پیشے سے وہ موچی تھا اور نسل در نسل جوتوں  کی مرمت کا ہنر اس تک پہنچ کر اٹک گیا تھا۔ نائی، موچی، کمہار اور دوسرے کم ذات لوگوں کے پیشے اپنی موت آپ ہی مر رہے تھے۔ گاؤں کی زندگی اتنی تیزی سے بدلی کہ پرانے جوتوں کی مرمت قصہ پارنیہ بن گیا۔ جب جوتوں کی مرمت نہیں ہوتی تو گاؤں کے لوگ کاتک اور بیساکھ کی فصل کا حصہ کیوں کر اشرف کو دیتے۔

 جوتوں کا انتظار کب تک کیا جاسکتا تھا۔ آخر اپنے ہی ہنر کو اپنے اوزار کے ہمراہ ایک ٹوٹے بکس میں بند سلاسل  کرنے کے بعد اشرف نے اپنے گھر کے ایک کمرے کا دروازہ گلی میں کھول کر دکان کی شکل دی۔ گاؤں میں اگرچہ پیشے کا بدلنا اپنی ہی عزت سے کھیلنے کے برابر تھا لیکن یہ عزت کا کھلواڑ اشرف جیسی قوم  کیلئے بڑی بات نہ تھا۔ اشرف نے چند دنوں میں اپنی اور ادھار کی رقم سے چینی، دالیں، گھی، سبزیاں اور دوسری ضروری چیزوں سے دکان کے کونوں کو سجا دیا۔ رقم تو خاصی خرچ ہو گئی تھی لیکن پھر بھی دکان کونوں کے علاوہ خالی خالی نظر آتی تھی۔ روزانہ  نزدیک شہر سے سائیکل پر سوادا سوار کر کے وہ آتا اور اس کے پیچھے اس کی بیوی دکان چلاتی۔ دو چھوٹے بچے جن کی عمریں دس سال سے کم تھیں گاؤں میں دوسرے بچوں کے  ہمراہ کھیل کر گھر آتے تو ماں سے ٹافیوں کی فرمائش کرتے۔ ماں اپنی محبت میں ایک ہاتھ سے ایک ایک ٹافی دیتی اور دوسرے ہاتھ سے مارنے کا اشارہ کرتی کہ خبردار اب اگر دوبارہ کوئی چیز مانگی تو بچے خوشی اور ڈر کے ملے جلے جذبات سے گھر کے اندر پڑی ہوئی گیلی مٹی سے چھوٹے چھوٹے برتن اور جانور بنانے میں مشغول ہو جاتے۔ اشرف کی زندگی دن بدن بدلنے لگی۔ روزانہ کا منافع چاہے تھوڑا ہی ہوتا لیکن دونوں میاں بیوی روپوں اور سکوں کو بار بار  گنتے اور ان کا لمس ایک عجیب خوشی دیتا جس کا احساس انہیں  پہلے کبھی زندگی میں نہ ہوا تھا۔ جس گھر میں اناج چند مہینے بعد آتا تھا اس گھر میں اب بٹوے کا پیٹ پھولنے لگا تھا اور سکوں کی تھیلی کا بڑھتا بوجھ سحر طاری کرتا تھا۔ چھ مہینوں میں ہی اشرف نے اپنا قرضہ اتار دیا۔ اگرچہ اس نے اپنا پیشہ  بدل لیا تھا اور گاؤں کے کسی چوہدری کا مرہون منت نہ تھا لیکن پھر بھی اس کے ہاتھ تعظیم کیلئے اٹھ جاتے تھے۔ لوگ اب بھی اسے ٹوٹے ہوئے جوتوں کی بھری ہوئی تہہ کے ساتھ بیٹھا  ہوا اشرف موچی ہی تصور کرتے تھے اور وہ خود بھی اس تصور کی جمی ہوئی مٹی کی تہہ کے رنگ کو بدلنے کے خیال سے عاری تھا۔ گاؤں میں وقت بدل رہا تھا، پہناوے بدل  رہے تھے اور پیشے بھی بدل رہے تھے۔ اشرف کی دکان کے اندر جگہ کم رہ گئی تھی اور سامان زیادہ آگیا تھا۔ ایک سال میں ہی اشرف اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ وقت کیوں اور کیسے بدل جاتا ہے، اس خیال سے بے پرواہ اشرف گرمیوں کی ایک شام کو اپنی دکان میں بیٹھا ہوا تھا۔ گاؤں کے دو تین آدمی بھی حقے کے کش لگانے کیلئے ادھر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ دھان کی  فصل کا بارش نہ ہونے کی وجہ سے نقصان پر خدا سے شکوے شکایت میں  مصروف تھے کہ اتنی دیر میں چوہدری یار محمد نمبردار کا گھریلو ملازم اللہ رکھا آگیا اور اشرف سے کہنے لگا کہ تمہیں چوہدری صاحب ابھی بلا رہے ہیں۔ اشرف پوچھنے لگا کہ خیریت تو ہے ناں؟ اللہ رکھا نے جواب دیا کہ مجھے بات کا تو علم نہیں البتہ ابھی آنے کا کہا ہے۔ اشرف اپنی دکان میں بیٹھے ہوئے ہمسائے کو دکان سونپ کر اللہ رکھا کے ہمراہ نمبردار کے ڈیرہ پر آیا۔ اشرف سلام کرنے کے بعد ایک چارپائی پر بیٹھ گیا۔ حقے کی نلی دو تین بیٹھے ہوئے آدمیوں کے منہ میں گڑگڑ کی آواز کے ساتھ دھواں بھرتے ہوئے اشرف کے منہ کے سامنے آ کر رک گئی۔ اشرف نے حقے کی نلی کو ہاتھ کی مٹھی میں دبا کر سانس اندر کھینچا تو حقے کی گڑ گڑ کے ساتھ تمباکو کا تیز مزہ حلق تک پہنچ گیا۔ کڑوے تمباکو کا اپنا  ہی مزہ ہے، کہہ کر اشرف  حقےاور تمباکو کی تعریف کرنے لگا۔ پھر چوہدری یار محمد نمبردار سے فصل کا دریافت کرنے کے بعد اشرف نے کہا کہ جی نمبردار  صاحب میرے لیے کیا حکم ہے۔ چوہدری یار محمد نمبردار  نے ایک وقفے کے توقف کے بعد اشرف سے استفسار کیا کہ دو ماہ قبل گندم کی کٹائی کے موسم میں تم نے چوہدری عاشق کے بیٹے اچھی اور بلو کمہار سے تین  بوریاں گندم خریدیں تھی۔ اشرف نے ایک لمحہ سوچنے کے بعد بغیر کسی پریشانی کے جواب دیا کہ ہاں انہوں نے مجھے  گندم فروخت کی تھی اور کچھ ادھار کی رقم چکانے کے بعد بقیہ رقم نقد وصول کر لی تھی۔ اشرف نے فوراً ہی نمبردار سے پوچھا کہ سب خیریت ہے؟ نمبردار نے جواب دیا کہ ہمیں کچھ شک ہے اور کل اچھی اور بلو کو بلوایا ہے، تم بھی آجانا۔ اشرف جی اچھا کہہ کر وہاں سے چل دیا۔ واپس دکان پر پہنچ کر اشرف نے اپنے ہمسائے امام دین کو ساری بات بتائی جواب وہاں اکیلا ہی حقے کی آخری گرم سانسوں کو اپنی سانسوں میں ملا رہا تھا۔ امام دین نے اسے بتایا کہ میں نے سنا ہے یار محمد نمبردار کی گندم  کسی نے چوری کی تھی لیکن چوروں کا علم نہ ہو سکا تھا۔ اشرف نے اپنے آپ کو تسلی دینے کیلئے کہا کہ مجھے کیا، میں نے کونسی چوری کی ہے۔ میں نے تو پوری رقم ادا کرنے پر ہی گندم خریدی تھی۔ ’جنہوں نے  گاجریں کھائیں، انہیں کے پیٹ میں درد ہوگا‘۔ کہہ کر خاموش ہو گیا۔
اگلے دن اشرف شہر سودا سلف لینے کی بجائے چوہدری یار محمد نمبردار کے ڈیرہ پر چلا گیا۔ ڈیرہ میں گاؤں کے کافی لوگ بیٹھے تھے۔ اچھی اور بلو کمہار بھی موجود تھے۔ اچھی بگڑی ہوئی عادتوں والا لڑکا تھا اور بلو کمہار تو گویا چوہدری اچھی کی سوچ اور حرکات کے زیر اثر کسی دوسری سمجھ بوجھ سے منحرف تھا۔ غلامی بھی محبت کا  پر تو لئے اندھے پن کا سوانگ بھرتی ہے۔ لوگوں کی نظریں کاربن پیپر کی طرح اٹھیں تو نیچے لکھے ہوئے حروف وہ چور آگیا، وہ چور آگیا کا شائبہ اشرف کو ہونے لگا۔ رات سے شروع ہونے والی چہ مگوئیوں سے بننے والی تصویر کینوس سے باہر نکلتی دکھائی دے رہی تھی۔ چند سوال جواب کے بعد اشرف کو معمولات زندگی کی بہتی ندی میں مدھم دکھائی دینے والی ذات پات کی لکیریں گہری اور پاٹ دار ہوتی نظر آئیں۔ اشرف  سر سے پاؤں تک پسماندگی کا مجسمہ بنے سوچ رہا تھا  کاش میں نے گندم نہ خریدی  ہوتی۔ برا ہوا! لیکن مجھے کیا علم تھا یہ چوری کی گندم ہے۔ احساس جرم بے گناہی اور ناانصافی کے خیالات ایک دوسرے کی جگہ بدل بدل کر اسے الجھا رہے تھے۔ وہ تھک گیا تھا۔ چھپ جانے یا بھاگ جانے پر اس کا دل مائل تھا۔ گاؤں کے معززین کے فیصلے میں اشرف کے سچ کو جھوٹ گردانتے ہوئے جرمانے کا اعلان کیا گیا تاکہ آئندہ کسی کو چوری کا مال خریدنے کی جرآت نہ ہو۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ جب کوئی چوری کا مال نہ خریدے گا تو چھلا چوری کیسے ہو سکتی ہے۔ اچھی اور بلو کمہار کا معاملہ نمبردار کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا کہ وہ خود اس کو دیکھ لیں گے۔ لوگوں کی دبی دبی آوازوں میں چور، چور کے الفاظ، اشرف  کو اپنے اندر ہونے والے چور، چور کے شور میں دبتے  ہوئے محسوس ہوئے۔ کاروبار بھی گیا عزت بھی گئی۔
کھیتی باڑی کے نئے آلات اور شہر کے بازار سے تعلق نے کسانوں کا اپنے  کمیوں سے تعلق کمزور کردیا تھا۔ گاؤں میں کسانوں کی نئی نسل نے اپنے باپ دادا کی وہ زمین جو کمیوں کے قبضہ میں تھی اس کو واپس لینے کا کام شروع کر دیا تھا۔ اشرف جیسے نیچ ذات کے دوسرے افراد کے باپ دادا کی غلامی اور خدمت اب پہچاننے  والے کہیں قبروں میں خاموش پڑے تھے۔ اگر زندہ بھی ہوتے تو بھلا غلامی کا مول کسی نے کبھی مانگا ہے۔
اشرف نے اپنی دکان کو تالا لگا کر جب رات کو چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگا تو اس کی بیوی نے بتایا کہ محلے کے اپنے برادری والے قیمت چکا کر گھروں کی زمیں خرید رہے ہیں۔ تم بھی کچھ سوچو۔ اگر یہاں سے اٹھنا پڑا تو کہاں جائیں گے۔ اشرف نے پریشانی سے جنم لینے والے غصے میں بیوی کو جھاڑ پلا دی اور بولا  کہ دیکھا جائے گا جب اوپر والا موجود ہے تو کچھ نہ کچھ تو ہوگا۔ ان دنوں بارشوں سے آنے والی کانگ نے نزدیکی دریا کے اندر بسنے والے لوگوں کو کناروں سے باہر پھینک دیا۔ چھت، اناج اور گنے چنے مویشیوں میں سے آدھے تو پانی ساتھ بہا لے گیا۔ دریا کے بند پر موجود انسان اور جانور تیز بہتے ہوئے گدلے پانی کو غصے سے دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں  ریاض بیلدار اور اشرف سائیکل پر بیٹھ کر وہاں آپہنچے۔ ریاض، اشرف کا بچپن کا دوست تھا اور آج وہ اشرف کو خاص مقصد کیلئے لے کر آیا تھا۔ سیلاب سے متاثر لوگوں کی مدد کیلئے ڈپٹی کمشنر صاحب آرہے تھے۔ پٹواری، بیلدار اور دوسرے چھوٹے سرکاری ملازم وہاں انتظام کیلئے آئے تھے۔ سینکڑوں متاثرہ لوگوں کی لسٹ بنائی جانی تھی۔ ان کی مالی مدد کے علاوہ گھروں کیلئے  جگہ  کا انتظام  بھی حکومت نے اپنے ذمے لیا تھا اور اعلان کیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر کے علاقے کا دورہ کیا تو علاقے کے بڑے زمیندار بھی ان کے ساتھ تھے۔ ڈپٹی کمشنر نے ہر خاندان کیلئے ۱۵ ہزار کی مالی امداد کا اعلان کیا اور بند کے ساتھ پھیلی ہوئی بنجر زمین، جو ان بڑے زمیندار کی ملکیت تھی،  پر اپنے مکان بنانے کی اجازت دے دی۔ دریا سے واپس آتے ہوئے اشرف بہت خوش تھا اور اپنے دوست ریاض کا شکر گزار تھا۔ اس کا نام سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی فہرست میں شامل تھا۔

No comments:

Post a Comment