Wednesday, 30 November 2016

قانون آخر ہے کس چڑیا کا نام؟ - اصول قانون

از ٹیپو سلمان مخدوم



کہا جاتا ہے کہ سیاست قانون کی ماں ہے۔ یہ بات قانون کی تضحیک کے لیے نہیں کہی جاتی بلکہ ایک اٹل حقیقت کا بیان ہے۔ دراصل  قانون کا احترام کرنے والے معاشروں  میں تمام اہم معاشرتی فیصلے لوگوں  کی اکثریت سے کیے جاتے ہیں۔ یہ فیصلے چھوٹے چھوٹے  معاشروں  میں لوگ  مل جل کر کر لیتے ہیں جبکہ بڑے معاشروں میں ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے لہٰذا نمائندہ مجلس بنا کر یہ فیصلےاس مجلس میں عوام کی جانب   سے کر لیے جاتے ہیں۔  مثال کے طور پر اگر ایک معاشرہ یہ چاہے کہ ان کے ملک میں قاتلوں کو سزاےَ موت دی جاےَ تو وہاں پر انتجابات میں مختلف سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں درج کریں گی کہ آیا کہ وہ منتخب ہونے کے بعد سزائے موت کا قانون بنایئں گی یا نہیں۔ معاشرہ اس مثال میں سزائے موت کے حق میں ہونے والی جماعت کو چنے گا۔ چنانچہ نمائندہ مجلس میں آ کر یہ جماعت  سزائے موت کے حق میں  قانون بنائے گی۔


 اب سوال یہ پیدا ہو گا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کیسے کیا جاےَ؟ تو اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ نمائندہ مجلس  عوام کے  اس فیصلے کی بنیاد پر حکم جاری کرےگی  کہ آئندہ سے قاتل کی سزا موت ہو گی لہٰذا  پولیس قاتلوں کو گرفتار کرے اور عدالتیں قاتلوں کو موت کی سزائیں دیں جبکہ جیل کے حکام ان قاتلوں کو پھانسی پر چڑھائیں۔ اس حکم کو قانون کہا جاتا ہے۔ چنانچہ قانون اس حکم کو کہا جاتا ہے جو معاشرے کے سیاسی فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں قانون سیاسی فیصلوں کی عملی شکل ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ قول کہ سیاست قانون کی ماں ہے۔


یہ تو بات ہوئی کہ قانون کی اصل کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ جب ایک سیاسی فیصلہ کر لیا جاتا ہے تو کیا اسے ایسے ہی نافظ العمل کر دیا جاتا ہے یا اسے قانون بنانے کے لئے کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟ عوام یا ان کے نمائندوں کے فیصلوں کو قانونی شکل دینے کے لیئے بہت سی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ دوسرے یہ کہ  کئی سیاسی  فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو سیدھے سادھے ہوتے ہیں اور ان کو قانون کی شکل میں ڈھالنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا، مثلا" سزائے موت کا فیصلہ۔ مگر زیادہ تر سیاسی فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن کو قانون میں ڈھالنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسے سیاسی  فیصلوں کی ہے جیسے کہ عوام یہ فیصلہ کر لیں کہ تمام قاضی یا جج صاحبان قابلیت کی بنا پر تعینات کئے جائیں ۔  اب اس سیاسی فیصلے کو قانون کی شکل دینا آسان نہیں۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ ایک جج کی تعیناتی کے لئے قابلیت کس طرح کی ہونی چاہیے؟  اس قابلیت کا معیار کیا ہونا چاہیے؟ اس قابلیت کو جانچنے کا اختیار کس کے پاس ہونا چاہیے؟ اور یہ کہ اس قابلیت کو جانچنے کا طریقہءِ کار کیا ہونا چاہیے؟ وغیرہ وغیرہ۔

مندرجہ بالا مسائل کے حل کے لئے ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ یہ حل کس طریقے سے حاصل کیے جائیں؟ یعنی کیا  فاعل نکال لی جائے یا سوچ بچار کیا جائے؟ ظاہر ہے کہ سوچ بچار کیا جائے گا مگر یہ  فیصلہ کرنا بھی ازحد ضروری ہے کہ یہ سوچ بچار آخر کن بنیادوں پر کیا جانا چاہیئے؟ جس بنیاد پر ہم یہ سوچ بچار کریں گے وہی اس کے نتیجے میں بننے والے قانون کی بنیاد ہو گی۔


 قوانین کی بنیاد پر بھی کئی قسم کی آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے ہے کہ قانون کی بنیاد منطق ہوتی ہے۔ دوسری  رائے کے مطابق قانون کی بنیاد ضرورت ہوتی ہے جبکہ ایک خیال ہے کہ قوانین محض تجربے کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں۔  مگر مقبولِ عام رائے کے مطابق اچھے قوانین بنانے کے لئے کئی چیزوں کا خیال رکھا جا سکتا ہے جیسے کہ منطق، اصول، ضرورت، الہام، معاشیت، معاشرت، سیاسی حکمتِ عملی، وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات کہ کوئی معاشرہ یا حکومت قانون بناتے ہوئے ان میں سے کس یا کن کن چیزوں کا خیال رکھے گی، اس معاشرے کی اقدار پر منحصر ہوتا ہے۔

اب اگر ہماری مثال میں ججوں کی تقرری کا قانون بنانا ہے تو یہ سوچنا ہو گا کہ ججوں کی تقرری کی قابلیت کس طرح کی ہونی چاہیے؟ ضرورت کے مطابق یہ قابلیت ایمانداری سے متعلق ہو سکتی ہے یا منطق کے مطابق اچھی قانون دانی یا پھر سیاسی حکمت عملی کے مطابق وہ قانون دان جو حکومتی جماعت کے طرفدار ہوں وہ قانونی طور پر دوسروں سے زیادہ قابل گنے جا سکتے ہیں یا پھر روایت کے اصول کے مطابق وہ لوگ جو اس ذات برادری یا علاقے سے تعلق رکھتے ہوں جو اقتدارِ اعلیٰ پر فائز لوگوں کی ذات برادری یا علاقہ  ہو، بذاتِ خود ایک قانونی قابلیت قرار پا سکتی ہے یا پھر معاشرے کی معاشی حالت کے مطابق قانون دان کا سستا ہونا بھی قانونی معیار قرار دیا جا سکتا ہے ، وغیرہ۔ اسی طرح قابلیت کا معیار، اس قابلیت کو جانچنے کا اختیار اور طریقہِ کار سب کچھ قانون وضع تو کرے گا مگر کسی نہ کسی بنیاد پر۔ اور یہ بنیاد کھڑی ہو گی معاشرے کی اقدار پر۔ چنانچہ قوانین کی تشکیل معاشرے کی سوچ پر منحصر ہو گی لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں رائج قوانین  دراصل اس  معاشرے کی سیاسی اور اخلاقی اقدار کے عکاس ہوتے ہیں۔


ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ کیا قانون کی صحیح معنوں میں ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ایک ہجوم دراصل معاشرے میں تبدیل ہی تب ہوتا ہے جب یہ ہجوم قوانین بنا کر انھیں اپنے اوپر لاگو کر لیتا ہے۔ چنانچہ یہ قانون ہی ہے جو جنگل کو ریاست بنا دیتا ہے۔ اگر معاشرے میں سے قانون ختم کر دیا جائے تو پھر وہ حالت قائم ہو جاتی ہے جسے جنگل کا قانون کہتے ہیں، جس میں کمزور طاقتور کا مویشی بن کر رہ جاتا ہے جسے طاقتور جب چاہے ذبح کر کہ اپنی بھوک مٹا لے یا اس کے بچے بیچ کر منافع کما لے۔ قانون دراصل معاشرے میں طاقتور اور کمزور کے درمیان توازن قائم کرتا ہے اور کمزور کے حقوق کی خاص طور پر حفاظت کرتا ہے تاکہ معاشرے میں سب مل جل کر رہ سکیں اور معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کر سکیں۔



قانون سے متعلق ایک بے حد اہم بات قانون کی مختلف اشکال ہیں، جن میں آئین، مقننہ کا ایکٹ، حکومتی آرڈی نینس، عدالتی فیصلے اور قوائد و ضوابط وغیرہ شامل ہیں جبکہ دوسری اہم بات قانون میں جمود و تغیر اور اس سلسلے میں ہونے والی قانونی تفاسیر سے متعلق ہے، جن دونوں باتوں کا تجزیہ ہم آئندہ کریں گے۔

No comments:

Post a Comment